احمد آباد، 15 فروری(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا) محمد حنیف اب جاکر سپریم کورٹ سے احمد آباد کے سیریل ٹفن دھماکے کیس میں چھوٹے ہیں۔ 29 مئی 2002 کواحمدآبادمیں پانچ بسوں میں ٹفن دھماکے ہوئے تھے جس میں ایک درجن سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے تھے۔ اپریل 2003 میں حنیف کو کرائم برانچ نے اس میں شامل ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔حنیف کا کہنا ہے کہ وہ بے قصور تھے اور انہیں غلط پھنسایاگیاتھا۔پہلے نچلی عدالت نے پھر ہائی کورٹ نے انہیں مجرم ٹھہرایا۔ اب سپریم کورٹ نے بری کر دیاہے۔ لیکن ان14سالوں میں ان کا پورا خاندان تہس نہس ہو گیا، روزگاراجڑگیا۔گرفتاری کے وقت وہ کپڑوں کا کاروبار کرتے تھے۔گرفتاری کے بعد ان کا نام دہشت گرد انہ مقدمات میں شمولیت کے الزام سے لوگوں نے ان سے کسی بھی قسم کی لین دین بند کر دیا۔سن 2006 میں حنیف کو احمد آباد کی ٹرائل کورٹ نے 10 سال کی سزا سنائی۔ اگلے سال صدمے سے ماں کی اورپھر2008 میں ڈپریشن کی وجہ سے بیوی کی موت ہو گئی۔ ان کے چاروں بچوں کو بھائی کے خاندان نے سنبھالا۔ بعد میں ہائی کورٹ نے ان کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی، لیکن اب 14 سال بعد سپریم کورٹ نے انہیں بے قصور مان کر بری کردیاہے۔اس معاملے میں کل 21 ملزم تھے جس سے چارج شیٹ کے وقت ہی چار بری کر دیے گئے. ٹرائل کورٹ نے 12 اور لوگوں کو بری کر دیا. بچے پانچ مجرموں میں سے ایک کو ہائی کورٹ نے بری کیا. اب باقی کے چار میں سے حنیف سمیت دو کو سپریم کورٹ نے بری کیا ہے. دیگر دو کو مجرم سمجھا، لیکن اب تک کی جیل کی اس کی سزا پوری مان کر انہیں بھی چھوڑ دیا گیا۔جمیعۃ علماء ہند کے مفتی عبدالقیوم گزشتہ چند مہینوں سے کورٹ کے معاملے میں ان سب کی مدد کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اکشر دھام، ہرین پنڈیا قتل اور ٹفن دھماکے، ان تمام معاملات میں لوگوں کا بری ہونا بتا رہا ہے کہ پولیس نے ان معاملات میں زیادتی کی تھی۔ اسی لئے جمعیت نے ایسے معاملات میں تحقیقات کے بعد معصوم لگنے والے لوگوں کی قانونی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔سن 2002 کے فسادات کے بعد یہ ایک اور کیس ہے جس میں سالوں جیل میں کاٹنے کے بعد لوگ معصوم چھوٹے ہیں۔ اس مسئلے سے پولیس سے جہاں لوگوں کی ناامیدی میں اضافہ ہوا تھا وہیں سپریم کورٹ سے ایک بار اور امید پیدا ہوئی ہے کہ ملک میں انصاف کاراج ابھی ختم نہیں ہواہے۔